ایک روپے کا ایک لفظ
ارسلان احسن بہت با ادب،تمیز دار اور نیک لڑکا تھا۔وہ اپنی جماعت میں ہمیشہ اول آتا تھا۔ان سب خوبیوں کے باوجود اُس میں بہت زیادہ بولنے کی خامی بھی تھی۔وہ جب ایک بار بولنا شروع کر دیتا تو اُس کو اس بات کا دھیان ہی نہ رہتا کہ وہ مسلسل بولے چلا جا رہا ہے۔ اُس کے دوست تو جیسے تیسے یہ سب برداشت کر لیتے،لیکن دوسرے لوگوں کو اُس کی توہین کا ایک بہترین موقع مل جاتا۔ایک دن ایک نئے اُستاد پڑھانے آئے۔انھوں نے تمام طلبہ سے اپنا اپنا تعارف کرانے کو کہا۔جب احسن کی باری آئی تو اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا کچھ شرارتی لڑکے کہنے لگے:”ارے سر!اس کو بولنے کی دعوت مت دیں۔ “ اُستاد نے کہا:”کیوں بھئی؟“ ”سر!یہ ایک بار بولنا شروع کر دے تو اس کو چپ کرانا مشکل ہو جاتا ہےاور پھر پوری کلاس ہنسنے لگی۔احسن کے لئے یہ پہلا موقع تھا جب اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اُس نے کوشش کی کہ وہ خاموش رہنے لگے،لیکن اس کے لئے اپنی عادت پر قابو پانا مشکل تھا۔ آہستہ آہستہ احسن کا مذاق بننے لگا۔حالت یہ ہو گئی کہ وہ جیسے ہی بات کرتا لڑکے اِدھر اُدھر جانے لگتے۔اب تو اُس کے دوستوں نے بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ایک دن عصر کی نماز کے بعد احسن نے گڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی۔اُس کے بعد وہ مسجد کی دیوار سے ملے ہوئے باغ میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اُس مسجد میں ایک بہت بڑی عمر کے بزرگ بھی نماز پڑھتے تھے۔بزرگ اچانک احسن کے برابر میں آکر بیٹھ گئے۔اُس نے احسن سے کہا:”بیٹا!ہمت نہ ہارو۔“ احسن حیران رہ گیا کہ بزرگ کو اُس کی حالت کا کیسے پتا چلا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ میں نے تمہیں اللہ سے دعا کرتے دیکھا۔انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔جیسے میں کہتا ہوں،ویسے کرو۔یہ لو دو ہزار روپے اور آنکھیں بند کرو۔“ احسن حیران تھا کہ بظاہر مفلس نظر آنے والے یہ بزرگ اتنے پیسے دے رہے ہیں۔اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ ایک الگ ہی دُنیا میں پہنچ گیا۔اُس نے دیکھا کہ لوگ ایک لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔احسن نے قطار میں کھڑے ایک شخص سے پوچھا:” یہاں کیا مل رہا ہے۔“ آدمی نے جواب دیا:”بیٹا!یہاں الفاظ مل رہے ہیں۔ ایک روپے کا ایک لفظ ہے۔ “ ”الفاظ․․․․“بس یہی کہنا تھا کہ احسن کو ایسا لگا کہ اُس کی زبان اُس کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔وہ گونگا سا ہو گیا تھا۔اُس نے گھبراہٹ کے مارے جلدی سے دو ہزار روپے نکالے اور قطار میں کھڑا ہو گیا۔ اُس نے دو ہزار روپے کے دو ہزار الفاظ خرید لیے۔ دوسرے ہی لمحے اُس نے خود کو بزرگ کے پاس باغ میں پایا۔بزرگ نے کہا:” بیٹا! اب تمہارے پاس ایک دن کے لئے محض دو ہزار الفاظ ہیں۔ایک ایک لفظ تول کر بولنا۔اگر یہ الفاظ ختم ہو گئے تو تم بولنے کے قابل نہیں رہو گے۔“ احسن پریشان ہو گیا،لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ تمام تر کوشش کے باوجود احسن نے یہ دو ہزار الفاظ اسی رات ختم کر دیے۔اگلے دن اسکول میں چڑانے والوں کو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا جس کے نتیجے میں وہ مذاق اُڑا اُڑا کر خود ہی خاموش ہو گئے۔دوپہر کے وقت ہی احسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ بولنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔اللہ اللہ کرکے عصر کا وقت آیا اور نماز پڑھ کر وہ باغ میں اُسی بینچ پر بے صبری سے بزرگ کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد بزرگ بابا وہاں پہنچ گئے۔ ”کیسے ہو میرے بچے!دن کیسا گزرا تمہارا۔کہیں پریشان تو نہیں ہو گئے۔ احسن کی آواز بحال تھی۔ اُس نے کہا:”بابا!یہ بہت مشکل کام ہے۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔“ درویش نے احسن کی مٹھی میں ایک ہزار کا نوٹ تھمایا اور آنکھیں بند کرنے کے لئے کہا۔ آنکھیں بند کرتے ہی احسن دوبارہ اُسی طلسماتی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ اُسے ایک ٹھیلے والا نظر آیا وہ آواز لگا رہا تھا:”الفاظ خرید لو․․․․الفاظ خرید لو․․․․الفاظ والا آگیا․․․․الفاظ والا آگیا․․․․“ لوگ یہ پکار سنتے ہی اُس کے گرد جمع ہونے لگے۔احسن نے بھی پھرتی دکھائی اور ایک ہزار الفاظ خرید لیے۔ وہ گھومتے گھومتے ایک گلی میں چلا گیا،جہاں دو آدمی باہم اُلجھ رہے تھے۔ابھی لڑائی بڑھ ہی رہی تھی کہ ایک شخص کے الفاظ ختم ہو گئے اور وہ خود بخود خاموش ہو گیا۔دوسرا شخص بھی سامنے والے کے خاموش ہوتے ہی ٹھنڈا پڑ گیا اور لڑائی ختم ہو گئی۔ اچانک اُس نے خود کو بزرگ کے پاس پایا۔ بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تمہارے پاس ایک ہزار الفاظ ہیں۔بہت زیادہ احتیاط کرنا ہو گی۔“ ”جی بابا!انشاء اللہ میں آپ کی بات پر پورا عمل کروں گا۔“ احسن نے اس بار بہت ہی احتیاط سے کام لیا اور جب اگلے دن وہ بزرگ کے پاس گیا تو اُس کے پاس دو سو الفاظ باقی تھے۔ بزرگ بابا بہت خوش ہوئے۔ احسن نے کہا:بابا!اب میرے اندر بہتری آرہی ہے۔میں اُسی وقت بولتا ہوں جب نہایت ضرورت ہوتی ہے۔تو اب میں آنکھیں بند کروں بابا؟“ ”ارے واہ میرے بچے!اب تمہاری منزل قریب ہے۔یہ لو پندرہ سو روپے۔ “ آج احسن کو طلسماتی دنیا خوبصورت لگ رہی تھی۔دلکش تالاب،سر سبز وادیاں،پانی کے جھرنے،خوبصورت پرندے۔احسن حیران رہ گیا۔ایسا حسین منظر کبھی اس کی نظروں سے نہیں گزرا تھا۔احسن نے ایک دکان سے پندرہ سو روپے کے پندرہ سو الفاظ خرید لیے۔ احسن نے سوچا کہ اگر ہر شخص اسی طرح اپنے الفاظ کی قدر کرے تو انسان کتنے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔اسی دوران اس کی آنکھ کھل گئی اور دوسرے ہی لمحے وہ باغ میں تھا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تم اسی وقت میرے پاس آنا،جب یہ پندرہ سو الفاظ ختم ہو جائیں۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم انھیں ایک دن میں ختم کر لیتے ہو یا ایک ہفتہ چلا لیتے ہو۔“ احسن نے یہ پندرہ سو الفاظ دس دن چلا لیے۔اب وہ سمجھ چکا تھا کہ بزرگ نے کس بہترین طریقے سے اُس کی تربیت کی ہے۔اُس کی خاموشی کی بدولت اب اُس کا مذاق اُڑانے والے بھی تھک چکے تھے۔ اساتذہ بھی اُس سے خوش تھے اور پہلے سے زیادہ اُس کی تعریف کرتے تھے۔ دس دن بعد بزرگ نے احسن سے کہا:”بیٹا!اب تمہیں الفاظ خریدنے کی ضرورت نہیں۔تم بولنے کے آداب سمجھ گئے ہو۔میں دعا کروں گا کہ تم ہمیشہ کامیاب رہو۔احسن بہت خوش ہوا۔بزرگ نے اُسے گلے لگا لیا۔احسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔