حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کا واقعہ

حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر کیوں بنی

انسانوں کے بندر بننے کی ابتدا حضرت داؤد علیہ السلام کے دور سے ہوئی اس واقعے کا پاسے منظر کچھ یوں ہے حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر کے کنارے ایلا نامی گاؤں میں رہتے تھے اور ان کی تعداد 70 ہزار کے قریب تھی یہ قوم بڑی ہی خوشحال تھی اور اللہ تبارک و تعالی کی فرمانبردار قوم تھی اس قوم کو اللہ تبارک و تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا ہر طرف سر سبز اور شاداب باغات اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور اللہ تبارک و تعالی کی بے پناہ کرم نوازی تھی یہ لوگ اپنی اس زندگی میں بہت ہی خوش تھے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم چونکہ سمندر کے کنارے رہتی تھی تو اللہ تبارک و تعالی کا ان پر خاص کرم تھا کہ سمندر کے اس کنارے پر بے پناہ مچھلیاں اتی تھی جن کا یہ لوگ کاروبار کرتے تھے اور بہت ہی خوشحالی والی زندگی گزارتے تھے جب یہ قوم اللہ تبارک و تعالی کی نعمتوں سے خوشحال ہو گئی تو اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی پر اتر ائی اور طرح طرح کے گناہوں کے اندر مبتلا ہو گئی اور پھر ایک دن اللہ تبارک و تعالی نے اس کام کا امتحان لینے کا ارادہ کیا حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو کہہ دے کہ ہفتے والے دن مچھلی کا شکار کرنا بند کر دے اس طرح اللہ تبارک و تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم پر ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار حرام فرما دیا اور پھر یہاں سے اس قوم کی بربادی شروع ہو گئی حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہفتے والے دن مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دے دیا ہے تو وہ لوگ بہت ہی زیادہ پریشان ہو گئے اور ساری قوم سر جوڑ کر بیٹھ گئی کیونکہ ہفتے کا دن ہی وہ دن تھا جس میں مچھلیاں وافر مقدار میں اتی تھی اور خود بخود کنارے پر ا جاتی تھی اور باقی دن ایسے تھے کہ بہت کم اور نہ ہونے کے برابر مچھلیاں پکڑی جاتی تھی اس قوم کا گزر بسر کیونکہ مچھلیوں کے شکار پر تھا اس وجہ سے اللہ تبارک و تعالی کا یہ حکم سن کر یہ قوم پریشان ہو گئی یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے یہ ایک ازمائش ہے پھر ایک دن شیطان نے ان کو وسو سا ڈالا کہ سمندر سے نالیاں نکال کر خشکی میں بڑے بڑے حوض بنا لیے جائیں جب ہفتے والے دن مچھلی آئیں گی تو نالیوں سے ہو کر ان بڑے بڑے حوضوں میں ا جائیں گی اور اس طرح ان نالیوں کا منہ بند کر لیا جائے اور اگلے دن یعنی اتوار والے دن ان کو پکڑ لیا جائے شیطان نے اس قوم کے لوگوں کو برغلایا کہ اس طرح ہم ہفتے والے دن شکار سے بھی بچ جائیں گے اور مچھلیاں بھی ہاتھ ا جائیں گی اور وہ بھی پکڑی جائیں گی بہت سے لوگوں کو یہ ہلا بازی اچھی لگی اور انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور سمندر سے چھوٹی چھوٹی نالیاں نکال کر بڑے بڑے حوضوں میں ڈال دی جس کے ذریعے وافر مقدار میں مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہو جاتی اس قوم کے بدبخت لوگوں کو شیطان کا یہ ہلا بہت پسند ایا لیکن اس قوم نے یہ نہ سوچا کہ جب مچھلیاں سمندر سےحوض میں آکر قید ہو گئی تو پھر مچھلیوں کا شکار ہی ہو گیا اس لیے یہ شکار بھی ہفتے والے دن قرار پایا جو اللہ تبارک و تعالی نے حرام قرار دیا تھا اس موقع پر یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حلے سے منع کرتے تھے اور ناراض و بیزار ہو کر شکار سے باز رہے پر کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے لیکن انہوں نے شکار نہ کیا اور دوسروں کو منع بھی نہ کرتے تھے بلکہ یہ لوگ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تبارک و تعالی عنقریب ہلاک کرنے والا ہے اور ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمانا والا ہے اس قوم کے کچھ لوگ ایسے تھے جو سرکش اور نافرمان لوگ تھے جنہوں نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی اعلانیہ مخالفت کی اور شیطان کے ہلے بازی کو مان کر ہفتے والے دن شکار کرنے لگے یہ لوگ اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی کھلم کھلا مخالفت کرتے اور ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کر کے ان کو کھایا کرتے اور بیچا کرتے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے 1200 ایسے نافرمان افراد تھے جو منع کرنے کے باوجود بھی ہفتے کو بھی ان نالیوں کے ذریعے شکار کرتے رہے حضرت داؤد علیہ السلام نے ان 1200 نافرمانوں کو اللہ تبارک و تعالی کے عذاب سے ڈرایا کہ وہ اللہ تبارک و تعالی کی اس نافرمانی سے باز ا جائیں لیکن وہ لوگ بات نہ ائے اور کھلے عام شکار کرنے لگے چنانچہ وہ لوگ جو اس بات کو برا جانتے تھے ان لوگوں نے اپنے اور ان نافرمانوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جس کی ایک طرف وہ1200 نافرمان رہے تھے اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو شکار سے باز رہے حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اس قوم کے نافرمانوں کو برہا سمجھایا لیکن یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ ائے اسی طرح اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کرتے رہے اور شکار کرتے رہے پھر ایک دن حضرات داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلا یہ منظر دیکھ کر کچھ لوگ ان کی دیواروں پر چڑھ گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ لوگ کس حال میں ہیں جب ان لوگوں نے ان نافرمانوں کو دیکھا تو سب کے سب بندر کی شکل میں مسخ ہو چکے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمایا اور ان کو انسانوں سے بندر بنا دیا جب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر ان کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور ان کے پاس ا کر ان کے کپڑوں کو سونگھتے تھے اور ذار و قطار روتے تھے لیکن وہ کچھ بول نہ سکتے تھے اللہ تبارک و تعالی کےان نافرمان بندر بن جانے والے لوگوں کی تعداد 12 ہزار تھی ان 12 ہزار لوگوں نے اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کی اور اللہ تبارک و تعالی نے ان کو بندر بنا دیا جس طرح اللہ تبارک و تعالی سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے (اور بے شک ضرور تمہیں معلوم ہے تم میں کہ وہ جنہوں نے ہفتے میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے) اس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے 12 ہزار نافرمان بندر بن گئے یہ لوگ تین دن تک زندہ رہے اور اس دوران یہ کچھ نہ کھا سکتے تھے اور نہ ہی پی سکتے تھے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے اور تین دن کے اندر سب کے سب مارے گئے اور وہ لوگ جو ان نافرمانوں کو اللہ تبارک و تعالی کی اس نافرمانی سے منع کرتے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کو اس عذاب سے سلامت رکھا اور وہ لوگ جو اس شکار کو برا جان کر خاموش رہتے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کو بھی اس عذاب سے سلامت رکھا محترم ناظرین اب بات کرتے ہیں کہ اج کے دور کے بندروں میں سے کیا کوئی بندہ ان کی نسل میں سے بھی موجود ہے یا اج کے دور میں پائے جانے والے بندر انہی بندروں کی نسل میں سے ہیں اس کے متعلق روایات میں اتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ اج کے بندر کیا حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم سے ہیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی جس قوم پر عذاب بھیجتا ہے یا ان کی شکلوں کو مسخ کرتا ہے تو یہ عذاب انہی پر ہوتا ہے جن پر یہ عذاب نازل ہوا تھا اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی ان لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور ان کے اگے نسل نہیں بڑھتی اس لیے یہ بات غلط ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اج کے بندروں میں بھی حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کےبندر بننے والوں کی نسل موجود ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ لوگ صرف اور صرف تین دن زندہ رہے اور اس کے بعد سب کے سب ہلاک ہو گئے اور اللہ تبارک و تعالی نے اس قوم کے نافرمانوں کو صفہ ہستی سے مٹا دیا

Please Click for more Islamic Waqiat in Urdu

Visit for Urdu Poetry, Urdu Quotes, Islamic Quotes, Islamic Information, Islamic Waqiat and More

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here