So friends in this blog post I have brought you Love Poetry in urdu which you can read and also share with your friends.

I hope you like this poetry. Do share your valuable feedback in the comments to encourage us.

Click for more 

Love Poetry in Urdu

Love Poetry in Urdu

 

واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے

کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا

 

کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر

دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی

 

ساقیا مے کہاں ہے شیشے میں

روشنی آفتاب کی سی ہے

 

اے نگاہ مست اس کا نام ہے کیف سرور

آج تو نے دیکھ کر میری طرف دیکھا مجھے

 

گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے

وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا

 

کون کہتا ہے محبت کا سفر ہے آسان

کچھ نہ کچھ تو یہاں الزام سا رہ جاتا ہے

 

جب محبت کا نام سنتا ہوں

ہائے کتنا ملال ہوتا ہے

 

اس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں

ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا

 

میں اس لئے بھی ذرا اس سے کم ہی ملتا ہوں

بہت ملو تو محبت سی ہونے لگتی ہے

 

رہنے دے اپنی بندگی زاہد

بے محبت خدا نہیں ملتا

 

مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے

ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا

 

محبت میں وفا کی حد جفا کی انتہا کیسی

مبارکؔ پھر نہ کہنا یہ ستم کوئی سہے کب تک

 

پھر نہ درماں کا کبھی نام مبارکؔ لینا

کفر ہے درد محبت کا مداوا کرنا

 

جاں نثاران محبت میں نہ ہو اپنا شمار

امتحاں اس لیے ظالم نے ہمارا نہ کیا

 

بعد نفرت پھر محبت کو زباں درکار ہے

پھر عزیز جاں وہی اردو زباں ہونے لگی

 

کون دریائے محبت سے اتر سکتا ہے پار

کشتیٔ فرہاد آخر کوہ سے ٹکرا گئی

 

تمام جسم کو آنکھیں بنا کے راہ تکو

تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے

 

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

 

محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید

سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی

 

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

 

دل بہت بے چین بے آرام ہے

کیا محبت کا یہی انجام ہے

 

دماغ دے جو خدا گلشن محبت میں

ہر ایک گل سے ترے پیرہن کی بو آئے

 

لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے

کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے

 

بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے

کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا

 

اے مصحفیؔ تو ان سے محبت نہ کیجیو

ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں

 

آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا

یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے

 

اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ

جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے

 

چاہوں گا میں تم کو جو مجھے چاہو گے تم بھی

ہوتی ہے محبت تو محبت سے زیادہ

 

ابھی آغاز محبت ہے کچھ اس کا انجام

تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہوگا

 

دل ہی دل میں یاں محبت اپنا گھر کرتی رہی

ہم رہے غافل وہ سو ٹکڑے جگر کرتی رہی

 

نہ آیا شام بھی گھر پھر کے اپنے

تماشائی بازار محبت

 

خوب رویوں کی محبت سے کریں کیوں توبہ

دین اپنا ہے یہی اور یہی اسلام اپنا

 

صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ

نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث

 

نملی اور نہ دودی ہے نہ منشاری ہے

نبض بیمار محبت کی ہے رفتار جدا

 

بہنوں کی محبت کی ہے عظمت کی علامت

راکھی کا ہے تہوار محبت کی علامت

 

یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے

میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں

 

اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید

ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا

 

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا

 

محبتوں میں تو کچھ بھی پتا نہیں لگتا

بہت برا ہے وہ پھر بھی برا نہیں لگتا

 

آج دیکھا ہے اسے ایسی محبت سے عطاؔ

وہ یہی بھول گیا اس کو کہیں جانا تھا

 

اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے

ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

 

تو محبت سے کوئی چال تو چل

ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے

 

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

 

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی

بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

 

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست

تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست

 

وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گلہ تو اس کا ہے

کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی

 

اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت

ترک محبت کرنے والو تم تنہا رہ جاؤ گے

 

جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل

کیا خبر اہل محبت کا ترانہ بن جائے

 

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے

روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

 

غور سے دیکھو مجھے اور پھر کہو

کیسے کیسوں کو محبت کھا گئی

 

اچھی خاصی دوستی تھی یار ہم دونوں کے بیچ

ایک دن پھر اس نے اظہار محبت کر دیا

 

ایک طرف کچھ ہونٹ محبت کی روشن آیات پڑھیں

اک صف میں ہتھیار سجائے سارے جنگ پرست رہیں

 

محبت نے مائلؔ کیا ہر کسی کو

کسی پر کسی کو کسی پر کسی کو

 

یہ کیا چیز تعمیر کرنے چلے ہو

بنائے محبت کو ویران کر کے

 

تنہائی سے بچاؤ کی صورت نہیں کروں

مر جاؤں کیا کسی سے محبت نہیں کروں

 

محبت تیر ہے اور تیر باطن چھید دیتا ہے

مگر نیت غلط ہو تو نشانے پر نہیں لگتا

 

چاہئے ہے مجھے انکار محبت مرے دوست

لیکن اس میں ترا انکار نہیں چاہئے ہے

 

راس آئے گی محبت اس کو

جس سے ہوتے نہیں وعدے پورے

 

اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل

وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

 

رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی

کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here