Allama Iqbal was the poet who is known all over the world and he is the poet of Pakistan.Before the creation of Pakistan, Allama Iqbal inspired the feelings of becoming Pakistan in his younger generation through his poetry and supported Quaid-i-Azam Muhammad Ali Janna and till today Allama Iqbal’s poetry is very famous.
In this post we are going to share with you Allama Iqbal Urdu Poetry which you can read and share with your loved ones.
Famous Allama Iqbal Urdu Poetry
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
دل میں خدا کا ہو نالازم ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی اور ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
سوداگری نہیں یہ ہی عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
کیوں منتیں مانگتا ہے آوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پر وردگار سے
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیر امز دور نہیں
عجب مزاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کاٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ
کسی کی نظر میں اچھے تھے کسی کی نظر میں برے تھے اقبال
حقیقت میں جو جیسا تھا ہم اس کی نظر میں ویسے تھے
بات سجدوں کی نہیں خلوص دل کی ہوتی ہے اقبال
ہر میخانے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا
حسن کردار سے نورے مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے
اللہ کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال ہی نہیں
دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
سجدوں سے تیرے کیا ہو ا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
کون رکھے گا یاد ہمیں اس دور خود غرضی میں
حالات ایسے ہیں کے لوگوں کو خدا یاد نہیں
آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید
سب کچھ ہے یاد مگر خدا یاد نہیں
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے پر سوں میں نمازی بن نہ سکا
نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے، خدا کے رازدانوں میں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
بھری بزم میں، راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
کون کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا
ایک وہی تو نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا
گئے دن سے تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیاد یکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لیٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدافریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کر تقدیر کا بہانہ
ملتے نہیں ہیں اپنی کہانی میں ہم کہیں
غائب ہوئے ہیں جب سے تیری داستاں سے ہم
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے تیری جوانی بے داغ رہے
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی
آٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا
یاد گار بزم دہلی ایک حالی رہ گیا
ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے
رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی
زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے، سر مستی ہے، بے ہوشی ہے یہ
تھی حقیقت ہے نہ غفلت فکر کی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں
خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
اقبال! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے
ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرانی
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
اے مسلماں ! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتش بے سوز پہ معذور ہے جگنو
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں
چلا ہوں وقت پیری سوئے شیرب
مرے لب پر ہے الفت کا ترانہ
میں ایک ہارا تھکا پنچھی ہوں گویا
جو وقت شام ڈھونڈے آشیانہ
ہم پر کرم کیا ہے خداے غیور نے
پورے ہوئے ہیں جو وعدے حضور نے
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایت زمانہ
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ میرا
کنج خلوت خانہ قدرت ہے، کاشانہ میرا
میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی
صدا تر ادلہ تو صنم آشنا، تجھے کیا ملے گانماز میں
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بہر خیالات کا پانی
قلم اٹھتا ہے تو سوچیں بدل جاتی ہیں
اک شخص کی محنت سے ملتیں تشکیل پاتی ہیں
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیروں و سناں اول طائوس و رباب آخر
وہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کسی نے اسماعیل کو آداب فرزندی