Rain poetry is an important part of Urdu poetry which is a sincere way for poets to feel and express moments. Rain is mentioned in different places in Urdu poetry.
In this blog post we bring you Rain Urdu poetry that you can read and share with your loved ones.
Click for more Rain Urdu Poetry
50+Rain Urdu Poetry
بس بھی کر ارے بادل غلطی کی
تجھے اپنی غم داستان جو سنا دی
لمبی سڑک ہلکی بارش ڈھیر سی باتیں تم اور میں
تیرے بعد اب ہم صرف کھڑکی سے بارش دیکھتے ہیں
بھیگے راستوں پہ تیرے ساتھ ٹہلنا تھا مجھے
ایسے موسم میں بھلا چھوڑ کے جاتا ہے کوئی
بہت ہی خواہشیں سو بارشوں میں بھیگی ہیں
میں کس طرح سے کہوں کہ عمر بھر اسی کا رہا
برس کچھ اور اے آوارہ بادل
کہ دل کا شہر پیاسا رہ گیا ہے
ہو لینے دو بارش ہم بھی رولیں گے
دل میں ہیں کچھ زخم پرانے دھو لیں گے
لو آج پھر رونے لگا ہے آسمان بن کے بارش
شاہد آج اس کو پھر احساس ہوا ہے میری تنہائی کا
تم پوچھتے تھے کہ کتنا پیار کرتے ہو
لو اب گن لو بوندیں بارش کی
خلوس کی بارش سے کہو کہ ذرا زور سے برسے
نفرتوں کے آئینوں میں بڑی دھول جمی ہے
وہ تو بارش کی بوندیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا اسے
نہیں معلوم کہ ہر گرنے والا قطرہ پانی نہیں ہوتا
ہم سے پوچھو مزاج بارش کا ہم جو کچے مکان والے ہیں
خدا سب سے زیادہ مایوس کن لمحات میں امید
بھیجتا ہے مقبول و سب سے زیادہ بھاری بارش
تاریک ترین بادلوں سے ہی ہوتی ہے
بارش کی بھیگی راتوں میں جب اشک فشانی ہوتی ہے
اک تیرا تصور ہوتا ہے اک تیری کہانی ہوتی ہے
جو منہ کو آرہی تھی اب لپٹی ہے پاوں سے بارش کے
بعد مٹی کی فطرت ہی بدل گئی
وہ بارش کے تسلسل میں مجھے بوندوں کے مانند یاد آئے
تمہیں بارش کے موسم سے بلا کا عشق ہوتا تھا
برستی آنکھ میں ساون کا منظر دیکھنے آؤ کبھی
بارش کی آوارگی نے ہر رت ہی بدل ڈالی
جنہیں مشکل سے بھولے تھے وہ پھر یاد آنے لگے
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن ، اسے بھول جا، اسے بھول جا
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
کتنی دل کش ہیں یہ بارش کی پھواریں لیکن
ایسی بارش میں مری جان بھی جاسکتی ہے
بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اک زخم ہےایسا
جو جل اُٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں
ان بارش کی بوندوں میں نہ جانے کس کے آنسو ہیں
صدیوں پہلے شاید کوئی صدیوں بیٹھ کے رویا تھا
در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش میری تنہائی چرانے آئی
فراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اتر اکمال کا موسم
میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
وہ عکس عکس میں تقسیم چشم تر سے ہوا
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے
وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں
جل گئے پیڑ کبھی دھوپ کبھی بارش میں
ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے
یہ بارش کر گئی کنگال اب کے
بارش کی برستی بوندوں نے جب دستک دی دروازے پر
محسوس ہوا تم آئے ہو انداز تمہارے جیسا تھا
لاکھ دوری ہو، مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو، میرا سوگ مناتے رہنا
مجھ پر تو جو کرتی ہے سو کرتی ہے عنایت
موتی تیرے بالوں میں پرو دیتی ہے بارش
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
موسم تھا بے قرار تمہیں سوچتے رہے
کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے
ہم چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے
جس طرح ٹوٹ کے گرتی ہے زمیں پر بارش
اس طرح خود کو تری ذات پہ مرتے دیکھا
صدائیں ڈوب جاتی ہیں ہوا کے شور میں
اور میں گلی کوچوں میں تنہا چیختا رہتا ہوں بارش میں
بارش نہیں لاتی کبھی افلاک سے خوشبو
خود جھوم کے اٹھتی ہے اسی خاک سے خوشبو
شام پڑے سو جانے والا ! دیپ بجھا کر یادوں کے
رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں
اسے معلوم ہی کب تھادل نا کام کا قصہ
میرے اشکوں کی بارش کو وہ میری شاعری سمجھا
موسم ہے بارش کا اور یاد تمہاری آتی ہے
بارش کے ہر ایک قطرے سے آواز تمہاری آتی ہے
بادل جب بھی گرجتے ہیں تو دل کی دھڑکن بڑھتی ہے
اور دل کی ہر ایک دھڑکن سے آواز تمہاری آتی ہے
موسم ہے بارش کا اور یاد تمہاری آتی ہے
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
میری طلب تھا اک شخص وہ جو نہیں ملا
تو پھرہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر
مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے
بتا پھر کون سے موسم میں امید وفا رکھیں
تجھے تو بارش کے دن بھی ہماری یاد نہ آئی
میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو
مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے
چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
برسات تھم چپکی ہے مگر ہر شجر کے پاس
اتنا تو ہے کہ آپ کا دامن بھگو سکے
اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں رات بھر
بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا
بھیگی مٹی کی مہک پیاس بڑھا دیتی ہے
درد برسات کی بوندوں میں بسا کرتا ہے
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں
کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی
پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے